جو جبیں تیرے در پہ خم ہی نہیں

وہ زمانے میں محترم ہی نہیں

اس لئے دل اداس رہتا ہے

دل لگی کو کوئی صنم ہی نہیں

اب اسے میں کریم کیسے کہوں

یعنی جو مائل کرم ہی نہیں

بحر دل خشک ہوگیا شاید

آج آنکھیں ہماری نم ہی نہیں

میرا ساقی ہے ساقیء کوثر

مجھ کو تشنہ لبی کا غم ہی نہیں

اس مرض کا علاج کیسے کروں

"​غم تو یہ ہے کہ کوئی غم ہی نہیں”​

یہ ترے بازوؤں کا صدقہ ہے

خم وفا کا کہیں علم ہی نہیں

کیا اٹھائے گا تو علم حق کا

بازوؤں میں ترے تو دم ہی نہیں

مجھکو کیوں کہہ رہے ہو دہشت گرد

میرے ہاتھوں میں کوئی بم ہی نہیں

ڈوبنا چاہتا ہوں میں لیکن

عشق کا یاں پہ کوئی یم ہی نہیں

تم سے دشمن بھی پیارے کرتے ہیں

عاشقوں میں تمہارے ہم ہی نہیں

کون مجھ سے کرے گا اب یاری

میں کوئی صاحب درم ہی نہیں

قلب مضطر بھلا کہاں جائے

بہر تسکیں کوئی حرم ہی نہیں

کیا طرفدار ہو ستمگر کے

سر تمہارا ہوا قلم ہی نہیں

جس پہ جا کے سوال کرنا پڑے

وہ تو نوری در کرم ہی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]