جو خزاں ہوئی وہ بہار ہوں ، جو اُتر گیا وہ خمار ہوں

جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں ، جو اُجڑ گیا وہ دیار ہوں

میں کہاں رہوں میں کہاں بسوں ، یہ یہ مجھ سے خوش ہ وہ مجھ سے خوش

میں زمین کی پیٹھ کا بوجھ ہوں ، میں فلک کے دل کا غبار ہوں

مرا حال قابلِ دید ہے ، نہ تو یاس ہے نہ امید ہے

نہ گلہ گزار خزاں ہوں میں ، نہ سپاس سنج بہار ہوں

کوئی زندگی ہے یہ زندگی ، نہ ہنسی رہی نہ خوشی رہی

مری گُھٹ کے حسرتیں مر گئیں ، انہی حسرتوں کا مزار ہوں

وہ ہنسی کے دن وہ خوشی کے دن ، گئے حشرؔ یاد سی رہ گئی

کبھی جامِ بادۂ ناب تھا ، مگر اب میں اُس کا اُتار ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]