جو خزاں ہوئی وہ بہار ہوں ، جو اُتر گیا وہ خمار ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں ، جو اُجڑ گیا وہ دیار ہوں
میں کہاں رہوں میں کہاں بسوں ، یہ یہ مجھ سے خوش ہ وہ مجھ سے خوش
میں زمین کی پیٹھ کا بوجھ ہوں ، میں فلک کے دل کا غبار ہوں
مرا حال قابلِ دید ہے ، نہ تو یاس ہے نہ امید ہے
نہ گلہ گزار خزاں ہوں میں ، نہ سپاس سنج بہار ہوں
کوئی زندگی ہے یہ زندگی ، نہ ہنسی رہی نہ خوشی رہی
مری گُھٹ کے حسرتیں مر گئیں ، انہی حسرتوں کا مزار ہوں
وہ ہنسی کے دن وہ خوشی کے دن ، گئے حشرؔ یاد سی رہ گئی
کبھی جامِ بادۂ ناب تھا ، مگر اب میں اُس کا اُتار ہوں