جو خود سپردگی تھی جنوں کی اساس میں

اب ممکنات میں نہ قرین قیاس میں

اعصاب مرتعش تو سماعت میں شور ہے

لایا گیا ہوں کھینچ کے ہوش و حواس میں

عریاں ہوئے نہ عیب بہرحال شکر ہے

پیوند بے شمار ہیں چاہے لباس میں

کس کس کے بوکھلا کے گلے سے نہیں لگا

کتنے ہی ہاتھ تھام کے دیکھے ہراس میں

کاسے میں ڈھل گئی ہے مری ملتجی انا

بے چارگی تو دیکھ مرے التماس میں

ہلکا سا ذائقہ ہے گزشتہ شکست کا

تلخی سی ہے تمہارے لبوں کی مٹھاس میں

تھا حسن جو نظر میں تو حیرانیوں کا تھا

کیا رہ گیا نگاہ زمانہ شناس میں

اک عمر اور ہو تو محبت میں کٹ سکے

اک عمر کاٹ دی ہے محبت کی آس میں

خوشبو کا انتشار علامت فنا کی ہے

اڑتا ہے رنگ پھول کا یعنی کہ باس میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]