جو روشن حلیمہ کا گھر دیکھتے ہیں

بفیض شہ بحر و بر دیکھتے ہیں

بشر کہنے والے بشر دیکھتے ہیں

مگر ان کو ہم عرش پر دیکھتے ہیں

ہیں بکھرے ہوئے سارے عالم میں جلوے

جہاں تک ہے جن کی نظر دیکھتے ہیں

شب و روز امت کی بخشش کی خاطر

شہ دیں کی آنکھوں کو تر دیکھتے ہیں

ہم اپنے تصور کے قربان جائیں

مدینے کی شام و سحر دیکھتے ہیں

کریں پیش وہ مصطفیٰ کا وسیلہ

جو اپنی دعا بے اثر دیکھتے ہیں

وہ ہے صرف سرورؔ غبارِ مدینہ

بہت جس کو شمس و قمر دیکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]