جو زندگی میں کہیں سخت موڑ آتے ہیں

مرے حسین مجھے راستہ دکھاتے ہیں

غموں کی دھوپ سے بچنے کے واسطے شبیر

تمہاری یاد کو ہم سائباں بناتے ہیں

وہ جن کا سارے زمانے میں بول بالا ہے

مرے حسین کے در سے ہی فیض پاتے ہیں

سنوارتے ہیں وہ دنیا بھی اور عقبیٰ بھی

درِ حسین پہ جو اپنا سر جھکاتے ہیں

کبھی ستا نہیں سکتا انہیں غمِ دارین

غمِ حسین کلیجے سے جو لگاتے ہیں

علی کے لعل ہیں وہ فاطمہ کے نورِ نظر

فرشتے جن کی بزرگی کے گیت گاتے ہیں

حسینِ پاک کی نسبت کا یہ اثر دیکھو

بلا و رنج سدا ہم سے مات کھاتے ہیں

مرے خیال کے سارے دریچے سب در و بام

حسین تیرے تصور سے جگمگاتے ہیں

مجیبؔ ان کی فضیلت بیاں کروں کیسے

مرے رسول جنہیں دوش پر بٹھاتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]