جو سکون شبد ہے ناں ؟ کسی رین بھی نہ آئے

کوئی ربط تیرے میرے مابین بھی نہ آئے

تجھے امتحان دینا بھی پڑے جو عشق والا

تو سبق سنانے جائے تجھے عین بھی نہ آئے

ہے دعا کہ تجھ پہ ٹوٹے مرے جیسی اک قیامت

تجھے موت بھی نہ آئے تجھے چین بھی نہ آئے

اسے کیا پڑی کہ لوٹے مری بے بسی کی خاطر

جسے یاد میرے روتے ہوئے نین بھی نہ آئے

تو دکھاوا کررہا تھا جو اگر تو دل سے کرتا

مرے دکھ پہ رونے والے تجھے بین بھی نہ آئے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]