جو ضم ہو عشقِ نبی میں ،ہے بیکراں دریا

اگر ہے نعت سمندر تو نعت خواں، دریا

لبوں نے پیاس میں پہنا تھا کَل، لباسِ درُود

گلاس لے کے کھڑے تھے یہاں وہاں دریا

کرے گا پار جو خندہ لبی سے آپ کا ہے

مہ و نجوم سفینے ہیں آسماں دریا

وہ جن کے شورِ روانی میں ہے ثنا کا سرور

اب ایک دو ہوں تو بولوں فلاں فلاں دریا

اُس اِک اشارہِ انگشت کی محبت میں

پھِرے ہے چاند کو لے کر کہاں کہاں ،دریا

مرے نبی کی کرامت سے بدر میں بارش

ہوئی تو گھونٹ کے اندر تھا اک نہاں دریا

فلک سناتا ہے جب رات کو ثنائے نبی

تو گیلی ریت پہ بنتا ہے سارباں ،دریا

درود پڑھتی ہوئی بارشیں پہاڑوں کی

بدن پہ اوڑھ کے ہوگا رواں دواں دریا

مدینے والوں نے کوثر کے جام پینے تھے

وگرنہ دوڑتا آتا وہ میزباں دریا

وہ نقشِ پائے نبی چومتی ہوئی بارش

جب آئی گھونٹ میں، لگتی تھی، بیکراں دریا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]