غم کو شکست دیں کہ شکستوں کا غم کریں

ہم بندگانِ عشق عجب مخمصے میں ہیں

آزاد کب ہوئے ہیں غلامانِ کم سخن

جو طوق تھے گلے میں سو اب بھی گلے میں ہیں

تم مل چکے ہو اہلِ ہوس کو، مگر یہ ہم

مصروف آج تک بھی تمہیں ڈھونڈنے میں ہیں

اک نقشِ آرزو کہ جھلکتا نہیں کہیں

یوں تو ہزار عکس ابھی آئینے میں ہیں

ہم لوگ سند باد نہیں ، گردشوں میں تھے

ساتوں سفر جنون کے اک دائرے میں ہیں

آسیب کھا چکا ہے جہاں دل کی دھڑکنیں

کردار داستان کے اس مرحلے میں ہیں

پیماں، بھرم ، غرور ، یقیں اور پھر اناء

گویا کہ ہم شکست کے اک سلسلے میں ہیں

وہ تو ترا بھلا ہو کہ ہم کو خبر ہوئی

ہم لوگ وہ نہیں ہیں کہ جو دیکھنے میں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]