جہاں میں جنسِ وفا کم ہے کالعدم تو نہیں

ہمارے حوصلۂ دل کو یہ بھی کم تو نہیں

ہم ایک سانس میں پی جائیں جامِ جم تو نہیں

سرشکِ غم ہیں پئیں گے پر ایک دم تو نہیں

تمہارے قہر کی خاطر اکیلے ہم تو نہیں

نگاہِ مہر بھی ڈالو تمہیں قسم تو نہیں

خدا کا گھر ہے مرا دل یہاں صنم تو نہیں

یہ میکدہ تو نہیں ہے یہ کچھ حرم تو نہیں

مرے غموں کا تجھے کیا لگے گا اندازہ

کہ تجھ کو اپنے ہی غم ہیں پرائے غم تو نہیں

مرے خیال میں پیچیدگی سہی لیکن

تمہاری زلفوں کی مانند پیچ و خم تو نہیں

جنوں نہیں ہمیں پیچھے لگیں جو دنیا کے

خدا کے بندے ہیں ہم بندۂ شکم تو نہیں

ہزار کیف بہشتِ بریں میں ہیں لیکن

دل اپنا جس کا ہے خوگر وہ کیفِ غم تو نہیں

لگے گی دیر سنبھلنے میں لغزشِ دل سے

سنبھل کھڑے ہوں نظرؔ لغزشِ قدم تو نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]