جیتے جیتے وہ دکھ جھیلا سکھ کا جینا چھوٹ گیا

ایک غریب سے جیسے اک انمول خزینہ چھوٹ گیا

آنسو دریا بن کر پھوٹے آنکھوں کے صحراؤں سے

ایک قرینہ صبر کا تھا وہ ایک قرینہ چھوٹ گیا

میرا منہ کے بل گرنا بھی میری لاپرواہی تھی

اک زینے پہ پاؤں رکھا اور اک زینہ چھوٹ گیا

وقت ہی تھا ناں کٹ جاتا ہے آخر میں نے کاٹ لیا

اور بھلا کیا ہونا تھا ، بس کھانا پینا چھوٹ گیا

کومل اس کا ہاتھ مرے ہاتھوں سے نکلا ہے اور آج

یوں لگتا ہے جیسے مجھ سے شہر مدینہ چھوٹ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]