جیسے مہک اڑے کبھی گل سے صبا کے ساتھ

مجھ سے بچھڑ گیا وہ مگر کس ادا کے ساتھ

شعلہ تو ایک پل نہ تہہ آب رہ سکے

میں ہوں کہ عمر کاٹ دی اس بے وفا کے ساتھ

یوں ہاتھ سے گیا وہ کبھی پھر نہیں ملا

اک عمر بھاگتا رہا گو میں ہوا کے ساتھ

جو آنکھ دی تو دیکھنا بھی فرض کر دیا

انسان زندہ ہے مگر پوری سزا کے ساتھ

جو کچھ کہوں میں سننا بھی پڑتا ہے وہ مجھے

گنبد میں جیسے بند ہوں اپنی صدا کے ساتھ

احسن وہ آنکھ ہے تو میں ہوں اس کی روشنی

رشتہ تو دور کا نہیں میرا خدا کے ساتھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]