حرمِ سیدِ ابرار تک آ پہنچے ہیں

سرزمینِ فلک آثار تک آ پہنچے ہیں

ہم سیہ کار بھی انوار تک آ پہنچے ہیں

ہم گنہ کار بھی دربار تک آ پہنچے ہیں

رقص کرتے ہوئے سامانِ سفر باندھا تھا

وجد کرتے ہوئے سرکار تک آ پہنچے ہیں

اللہ اللہ یہ ہم سوختہ جانوں کا نصیب

کہ ترے سایہء دیوار تک آ پہنچے ہیں

جو فسانے رہے برسوں مرے دل میں مستور

میرے خواجہ! لبِ اظہار تک آ پہنچے ہیں

اِس سے آگے کوئی جادہ ہے نہ منزل نہ مقام

کہ ترے کوچہ و بازار تک آ پہنچے ہیں

اب مرے اشکوں کی قیمت کوئی مجھ سے پوچھے

یہ گہر ، شاہ کے دربار تک آ پہنچے ہیں

اُن کی قسمت پہ سلاطیں کو بھی رشک آتا ہے

جو گدا آپ کے دربار تک آ پہنچے ہیں

فائزِ جلوہ و فردوس بداماں ہیں وہ لوگ

جو مدینے کے چمن زار تک آ پہنچے ہیں

اُن کی رحمت مجھے دربار میں لے آئی ہے

جلوے خود طالبِ دیدار تک آ پہنچے ہیں

میرے جذباتِ عقیدت بھی ہیں اُن کا فیضان

جو مرے نطقِ گہر بار تک آ پہنچے ہیں

درِ محبوب پہ یہ آہیں ، یہ اشکوں کا ہجوم

قافلے قافلہ سالار تک آ پہنچے ہیں

للہ الحمد ملا اِذنِ حضوری مظہر

للہ الحمد کہ سرکار تک آ پہنچے ہیں​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]