حقیقت کے رُوحِ رواں آ رہے ہیں

وہ فخرِ زمین و زماں آ رہے ہیں

زمانے کے راحت رساں آ رہے ہیں

کرم گسترو مہرباں آ رہے ہیں

صداقت کے وہ ترجماں آ رہے ہیں

شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

زمیں جن کے جلووں سے معمور ہو گی

حیات آدمیت کی پُر نور ہو گی

بدی دفعتاََ دہر سے دور ہو گی

غرض ظلمتِ کُفر کافور ہو گی

وہی زینتِ خاکداں آ رہے ہیں

شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

مشیت کے لب پر ہے رقصاں تبسم

تموج میں ہے آج رحمت کا قلزم

ملائک تحیر کے عالم میں ہیں گم

چھلکتے ہیں رحمت کے پیمانہ و خُم

وہی ساقیِ دو جہاں آ رہے ہیں

شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

قضا و قدر کا مقدس قرینہ

منور تھا جس سے کبھی طُورِ سینا

رسالت کے خاتم کا روشن نگینہ

نبوت کا جلوہ ہے سینہ بہ سینہ

وہ فاراں پہ جلوہ فشاں آ رہے ہیں

شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

وہ نبیوں کے سردار سرکار عالی

زمانہ ہوا جن کے در کا سوالی

یتیم آمنہ کا دو عالم کا والی

وہ انسانیت کی بنا جس نے ڈالی

وہی محسنِ انس و جاں آ رہے ہیں

شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

جو اُترا تھا سرتاج بن کر زمیں پر

قدم لے گیا تھا جو عرشِ بریں پر

نشاں سروری کا تھا جس کی جبیں پر

حکومت ملی جس کو دنیا و دیں پر

وہی سرورِ قدسیاں آ رہے ہیں

شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

روش اس چمن کی نکھرنے لگی ہے

نئے سر سے دنیا سنورنے لگی ہے

فلک سے تجلی اترنے لگی ہے

حقیقت پھر اک بار ابھرنے لگی ہے

علم دارِ آخر زماں آ رہے ہیں

شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]