خامۂ خاموش مُضطر، چشمِ پُر نم معتبر

بارگاہِ ناز میں ہے عجزِ پیہم معتبر

زیست ورنہ سر بسر شامِ زیاں، خوابِ گراں

تیری مدحت میں جو گُزرے وہ ہے اِک دَم معتبر

جو کشیدہ سر تھے اُن کے نام ہی بے نام ہیں

جو ترے قدموں میں آکر ہو گئے خم، معتبر

در بدر ہوتے تو ہوتے خوار، رسوا، بے نشاں

آپ کے ہیں، آپ کے ہوتے ہُوئے ہم معتبر

نام نے بخشے ہیں تیرے جو وظیفے، کارگر

نعت نے رکھے ہیں جو زخموں پہ مرہم معتبر

ایسے ہی آنکھوں میں تیری یاد کے آنسو کھِلے

جیسے کلیوں پر سحر دم رقصِ شبنم معتبر

انبیا آئے تھے بہرِ جشنِ میلادِ نبی

کیسا تھا وہ اس زمیں پر خیر مَقدَم معتبر

شوخ رنگوں نے دِکھائے بے یقینی کے سراب

تیرے عہدِ نُور کے تھے رنگ مُحکم، معتبر

شورشِ ابلیس کی زد میں تھا ہستی کا وجود

تیرے آنے سے ہُوئی اولادِ آدم معتبر

اعتبارِ زیست دیتی ہے تری وابستگی

جیسے باہو معتبر ہیں، جیسے ادہم معتبر

کیوں ترا مقصودؔ پھر بے نام ہو، ناکام ہو

تیرے بندے تو ہیں اے سلطانِ عالَم معتبر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]