خدا ہی جانے ہمیں کیا خبر کہ کب سے ہے

جو اُن کے ذکر کا رشتہ ہمارے لب سے ہے

نہ اُن سے پہلے کوئی تھا نہ اُن کے بعد کوئی

جُدا جہاں میں نبی کا مقام سب سے ہے

ہو دل کا نور، نگاہوں کا نور، علم کا نور

ہر ایک نور کو نسبت مہِ عرب سے ہے

مری پکار درِ سیّدالوریٰ تک ہے

مرا سوال اُسی شاہِ خوش لقب سے ہے

نگاہِ بندہ نوازی تجھے درود و سلام

کہ تیرا لطف زیادہ مری طلب سے ہے

صبیحؔ کو بھی اجازت ہو باریابی کی

حضور آپ سے یہ التماس ادب سے ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]