خزاں کی رُت میں بھی دل کی کلی کِھلی ہُوئی ہے
ترے کرم ہی سے خیرات یہ مِلی ہُوئی ہے
دُرود پڑھتا ہُوا آ رہا ہوں محفل سے
اِسی لئے مری رنگت کِھلی کِھلی ہُوئی ہے
حضور کوئی سہارا کہ گرنے والی ہے
مری فصیل جو بنیاد سے ہِلی ہُوئی ہے
اے نُطقِ پاک مرے دل کی خامشی کو توڑ
مری صدا مرے حلقوم میں سِلی ہُوئی ہے
بس ایک موجۂ رحمت کہ کِھل اُٹھے سینہ
مسلّط آج بہت مُجھ پہ بے دِلی ہُوئی ہے
مَیں گِرتے پڑتے ہی طیبہ کی سمت چل پڑا ہُوں
شکستہ پاؤں ہیں اور پُشت بھی چِھلی ہُوئی ہے