خمیر خاک کا پھر خاک پر لگا رہے گا
فرشتہ موت کا جب تاک پر لگا رہے گا
میں بے خیالی میں ماروں گی ہاتھ ٹیبل پر
اور ایک چشمہ مری ناک پر لگا رہے گا
نجانے ہاتھ لگے گا وہ پارسل کس کے
مرا تو دھیان مری ڈاک پر لگا رہے گا
ہزار کام تھے جو روشنی سے ہو جاتے
مگر وہ چاند تو ـ افلاک پر لگا رہے گا
صراحی توڑ کے دوڑیں گے کھیلتے بچے
وہ کوزہ گر کہ یونہی چاک پر لگا رہے گا
جسے قبول ہو تہمت مجھے قبول کرے
یہ داغ عشق کا پوشاک پر لگا رہے گا
تو میرا حق نہیں بنتا، جھگڑ کے سو جاؤں ؟
وہ پوری رات جو ٹک ٹاک پر لگا رہے گا
اسی کے نام کے حرفوں کا پیٹرن کومل
ہمیشہ فون کے ہر لاک پر لگا رہے گا