خمیر خاک کا پھر خاک پر لگا رہے گا

فرشتہ موت کا جب تاک پر لگا رہے گا

میں بے خیالی میں ماروں گی ہاتھ ٹیبل پر

اور ایک چشمہ مری ناک پر لگا رہے گا

نجانے ہاتھ لگے گا وہ پارسل کس کے

مرا تو دھیان مری ڈاک پر لگا رہے گا

ہزار کام تھے جو روشنی سے ہو جاتے

مگر وہ چاند تو ـ افلاک پر لگا رہے گا

صراحی توڑ کے دوڑیں گے کھیلتے بچے

وہ کوزہ گر کہ یونہی چاک پر لگا رہے گا

جسے قبول ہو تہمت مجھے قبول کرے

یہ داغ عشق کا پوشاک پر لگا رہے گا

تو میرا حق نہیں بنتا، جھگڑ کے سو جاؤں ؟

وہ پوری رات جو ٹک ٹاک پر لگا رہے گا

اسی کے نام کے حرفوں کا پیٹرن کومل

ہمیشہ فون کے ہر لاک پر لگا رہے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]