خواہشیں خواب ہوئیں ، خواب فراموش ہوئے

ہم کہ سو رنگ دکھاتے تھے سیہ پوش ہوئے

تم نے سوچا ہے ؟ گلہ کوئی نہیں ہے کہ ہے

وہ بہت بولنے والے تھے جو خاموش ہوئے

ہوشمندانِ محبت کہ تھے مدہوشِ وفا

اڑ گئے ہوش تو مدہوش سے بے ہوش ہوئے

تم نے معزول کیا رتبہِ دلداری سے

اور ہم درجہِ ہستی سے سبکدوش ہوئے

پھر سے رقصاں ہیں ترے عمر رسیدہ مجنوں

سر بہ زانو تھے ترے ذکر سے پر جوش ہوئے

تیری زنجیر کے حلقوں کی عنایت ناصر

ہم اسیروں کے لئے حلقہِ آغوش ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]