خود اپنی حقیقت سے بیزار ہے یہ دنیا
اس دور سے کیا چاہیں ، اس عہد سے کیا مانگیں
اب خونِ رگِ جاں بھی قاصر ہے چہکنے سے
اربابِ جنوں کس سے جینے کی ادا مانگیں
معلیٰ
اس دور سے کیا چاہیں ، اس عہد سے کیا مانگیں
اب خونِ رگِ جاں بھی قاصر ہے چہکنے سے
اربابِ جنوں کس سے جینے کی ادا مانگیں