خود کشی میں نے ملتوی کر دی

میں بناتا رہا وفا کی لکیر

میرے ہاتھوں میں تھی دعا کی لکیر

خود کشی میں نے ملتوی کر دی

جب ابھرنے لگی قضا کی لکیر

وقت کے ہاتھ فیصلے تھے اور

پتھروں پر لکھی خدا کی لکیر

خواب کو راستہ دکھاتی گئی

آسماں تک وہ انتہا کی لکیر

جرم ثابت نہیں ہوا میرا

کھینچ دی آپ نے سزا کی لکیر

کون سے موسموں کی آمد ہے

بن رہی ہے یہ کس فضا کی لکیر؟

دیجیے ہاتھ میرے ہاتھوں میں

دور تک کھینچئے ہوا کی لکیر

عشق میں ذات کی نفی سے قبل

کاٹنی تھی ہمیں انا کی لکیر

ہم نے دیکھی تھی اس کی آنکھوں میں

دلِ کافر تری ادا کی لکیر

ایک جانب تھی میری کھینچی ہوئی

دوسری سمت دلربا کی لکیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]