’’داغِ فرقتِ طیبہ قلبِ مضمحل جاتا‘‘

آرزوؤں کا صحرا باغ بن کے کھل جاتا

حاضری کا غم میرے دل سے مُستقل جاتا

’’کاش گنبدِ خضرا دیکھنے کو مل جاتا‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated