دستِ قاتل کہ نہیں اذنِ رہائی دیتا

میں نے مرنا تھا بھلے لاکھ صفائی دیتا

میں کہ احساس تھا محسوس کیا جانا تھا

میں کوئی روپ نہیں تھا کہ دکھائی دیتا

دامنِ چاک تو گل رنگ ہوا جاتا ہے

اور خیرات میں کیا دستِ حنائی دیتا

اب کہیں ہو تو صدا دے کے پکارو ورنہ

اس اندھیرے میں نہیں کچھ بھی سجھائی دیتا

داد و تحسین کے ہنگام میں دل کا نوحہ

پردہِ شعر ہٹانے پہ سنائی دیتا

میں ترے درد کی جاگیر کہاں دیتا تھا

وقت بدلے میں بھلے ساری خدائی دیتا

دل کو لے دے کے میسر ہی یہی مقتل تھا

اور کم بخت کہاں جا کے دہائی دیتا

میں تو پابندِ دعا تھا کہ گداگر ٹھہرا

کاسہ عشق میں چاہے وہ جدائی دیتا

زندگی دوڑ کے لپکی تھی مگر ، دیوانہ

آں پہنچا ہے سرِ دار ، جھکائی دیتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]