اُڑ گئے رنگ مگر خواب کا خاکہ اب تک
قابلِ دید بھی ہے ، شاملِ تزئین بھی ہے
دل کی دیوار کی زینت کو ضروری ٹھہرا
ایک وہ عکس کہ بے رنگ بھی ، رنگین بھی ہے
سن رسیدہ ہی سہی عشق کا کرتب لیکن
قابلِ داد بھی ہے ، لائقِ تحسین بھی ہے
ایک لہجہ کہ فراموش ہوا، یاد بھی ہے
وہ تماشہ ہے کہ اب پیاس بھی ، تسکین بھی ہے
اک بلاوا ہے مگر بند دریچوں کی طرف
ایک آواز کہ تنبیہہ بھی ، تلقین بھی ہے
عمر اس موڑ پہ ہے اب کہ تمہاری خواہش
شدتِ شوق کا اظہار بھی ، توہین بھی ہے
چیخ اٹھا ہوں تو اس چیخ کے پردے میں کہیں
تاجپوشی ہے ترے درد کی، تدفین بھی ہے