دشت ِ قضاء میں خاک اُڑاتی حیات کی

دشتِ قضاء میں خاک اُڑاتی حیات کی

مبہم سی ایک شکل رہی واقعات کی

آخر کو ارتکاز دھماکے سے پھٹ گیا

درپے کشش رہی تھی مرے شش جہات کی

جب میں ہی عارضی ہوں تو کیا دائمی وفا

جچتی نہیں ہے بات بھی لب پر ثبات کی

اُس آسماں بدوش نے پہلو بدل لیا

بنیاد ہل گئی ہے مری کائنات کی

میں کم نصیب تھا کہ فقط جان دے سکا

فہرست تو طویل رہی واجبات کی

لاحق تھا ایک قہر کہ جو ٹوٹتا نہ تھا

ممکن نہ تھی مجھے کوئی صورت نجات کی

ائے بارگاہِ ناز ، میں قربان گاہ سے

لایا ہوں لاش اپنی چنیدہ صفات کی

دو گز زمین تھی کہ وراثت ملی مجھے

میں صرف بازگشت ہوں آدم کی ذات کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]