دشتِ ویران میں آوازِ جرس باقی ہے

دل کو پھر آگ لگاؤ کہ یہ خس باقی ہے

کون سا وصل کرے آ کے مداوا، کہ یہاں

جس کو پایا تھا ابھی اس کی ہوس باقی ہے

اس قدر کھل کے عنایات کہ کیا ہی کہنے

مرگ سیراب ہوئی ہجر میں رس باقی ہے

تم عبث دل میں پریشان ہوئے جاتے ہو

کوئی توجیہہ نہیں درد کی بس باقی ہے

عشقِ پامال ، ابھیی جسم سلامت ٹھہرے

اک قفس ٹوٹ چکا ، ایک قفس باقی ہے

آ، ترے نام پہ یہ سانس بھی واری جائے

خشک ہونٹوں پہ ابھی ایک نفس باقی ہے

تیرا ناصر جو کبھی سالِ گزشتہ میں تھا

اس کی تصویر فقط اب کے برس باقی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]