دعا کی اپنی ضرورت ، شراپ کی اپنی

طلب جدائی کی اپنی ملاپ کی اپنی

قدم بڑھاتے ہوئے ڈگمگا گئے ہم لوگ

اٹھا کے گٹھڑی چلے پُن و پاپ کی اپنی

میں کس کے چھوڑ کے جانے پہ کم کروں ماتم

کہ ماں کی اپنی محبت تھی باپ کی اپنی

میں خود ہی پیچھا کئی دن سے کررہی اپنا

سنی ہے میں نے صدا پھر سے چاپ کی اپنی

کسی طرح مرے غصے کو درگزر کرئیے

میں بدمزاج سہی ہوں تو آپ کی اپنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]