دل تری یاد سے کس رات ہم آغوش نہیں

نیند آتی مجھے کس وقت ہے کچھ ہوش نہیں

رندِ شائستہ ہوں میں رندِ بلا نوش نہیں

ہیں مرے ہوش بجا تیرے بجا ہوش نہیں

شاخِ نخلِ چمنستاں ابھی گل پوش نہیں

دیکھنا رنگِ بہاراں کا ابھی جوش نہیں

نگہِ ساقیِ گلفام کہ ہے ہوشربا

کون ایسا ہے سرِ بزم کہ مدہوش نہیں

سحر انگیزی و شیرینیِ گفتار نہ پوچھ

کون آواز پہ ان کی ہمہ تن گوش نہیں

ٹوک دیتا ہے معاً مجھ کو مری لغزش پر

ہے ضمیر اپنا کہ رہتا کبھی خاموش نہیں

سرگراں اب بھی ہے کیوں وہ یہ مجھے کیا معلوم

میں وفا کیش نہیں یا میں ستم کوش نہیں

تو خطا پوش ہے کیوں تو ہے نظرؔ سے روپوش

میں خطا کر کے بھی تجھ سے کبھی روپوش نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]