دل میں اب کوئی ترے بعد نہیں آئے گا

سنگِ ارزاں تہِ بنیاد نہیں آئے گا

دن نکلتے ہی بُھلا دوں گا میں اندیشۂ روز

سرحدِ صبح میں شب زاد نہیں آئے گا

ایسے اک طاقِ تمنا پہ رکھ آیا ہوں چراغ

بجھ گیا بھی تو مجھے یاد نہیں آئے گا

حسنِ خود دار کو اِس دورِ خود آرا میں بہم

ہنر مانی و بہزاد نہیں آئے گا

طوقِ زرناب ہوئے زیبِ گلوئے گفتار

اب کہیں سے سخن آزاد نہیں آئے گا

فرقِ زندان و گلستان بھی سب دیکھ لیا

لب پر اب شکوۂ صیاد نہیں آئے گا

کھوج کس کی ہے تمہیں راہ نوردانِ فراق

اب کوئی قریۂ آباد نہیں آئے گا

عشرتِ سایۂ دیوار کی چالوں میں دگر

پائے درماندۂ افتاد نہیں آئے گا

اب کسی شعبدہ گر دامِ عنایت میں ظہیرؔ

یہ دلِ خوگرِ بیداد نہیں آئے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]