دل کی بستی مین خزاؤں کے عذاب آتے ہیں

اس بیاباں میں کہاں تازہ گلاب آتے ہیں

تم ناں اب اپنے لئے اور ٹھکانہ ڈھونڈو

ان دنوں مجھ کو کسی اور کے خواب آتے ہیں

ایسے لوگوں کو لگاتی ہی نہیں منہ ورنہ

ایسی باتوں کے مجھے خوب جواب آتے ہیں

عین ممکن ہے کہ وحشت میں کمی آ جائے

اس خرابے میں اگر ہم سے خراب آتے ہیں

ضد پہ آؤں تو ذرا دیر نہ سوچوں لیکن

یاد آتے ہیں تو بے حد و حساب آتے ہیں

ہم کسی دل کو اذیت تو نہیں دیتے ہیں

ہم کو اے دوست یہی کار ثواب آتے ہیں

پیاس میں ریت بھی لگ سکتی ہے دریا جیسی

یار رستے میں بہت سارے سراب آتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]