دل کی بستی مین خزاؤں کے عذاب آتے ہیں
اس بیاباں میں کہاں تازہ گلاب آتے ہیں
تم ناں اب اپنے لئے اور ٹھکانہ ڈھونڈو
ان دنوں مجھ کو کسی اور کے خواب آتے ہیں
ایسے لوگوں کو لگاتی ہی نہیں منہ ورنہ
ایسی باتوں کے مجھے خوب جواب آتے ہیں
عین ممکن ہے کہ وحشت میں کمی آ جائے
اس خرابے میں اگر ہم سے خراب آتے ہیں
ضد پہ آؤں تو ذرا دیر نہ سوچوں لیکن
یاد آتے ہیں تو بے حد و حساب آتے ہیں
ہم کسی دل کو اذیت تو نہیں دیتے ہیں
ہم کو اے دوست یہی کار ثواب آتے ہیں
پیاس میں ریت بھی لگ سکتی ہے دریا جیسی
یار رستے میں بہت سارے سراب آتے ہیں