دلوں میں عشق احمد کو بسائے ایسی مدحت ہو

ادب کا منصبِ اعلیٰ دلائے ایسی مدحت ہو

عطا حسنِ ارادت ہو، بصیرت بھی ملے مجھ کو

سبق سیرت کا جو ازبر کرائے ایسی مدحت ہو

سلیقہ مجھ کو بھی حسنِ بیاں کا دے مرے مولا

حریمِ حرف میں خوشبو بسائے ایسی مدحت ہو

میں کھو جاتی ہوں اکثر یادِ طیبہ میں‘ مرے مولا

رسائی مجھ کو طیبہ تک دلائے ایسی مدحت ہے

وہ مدحت ہو کہ جس میں حرمتِ سرور مجسم ہو

جو میری فکر کو اعلیٰ بنائے ایسی مدحت ہو

ثنائے شاہِ طیبہ کا قرینہ بھی میسر ہو

گہر افکار کے ہر سو لٹائے ایسی مدحت ہو

اویسی اور بلالی عشق کی تنویر مل جائے

مرے الفاظ میں خوشبو سمائے ایسی مدحت ہو

یہی اک آرزو ہے نازؔ کی اب اے مرے آقا

درِ اقدس پہ آکر خود سنائے ایسی مدحت ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]