دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

شکن زلف عنبریں کیوں ہے

نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا

اور درویش کی صدا کیا ہے

جان تم پر نثار کرتا ہوں

میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]