دور ہے اس واسطے مجھ سے بلا و شر کی دھوپ

صحنِ دل میں جلوہ گر ہے یادِ پیغمبر کی دھوپ

چھاؤں تو چھاؤں رہی ، آثارِ رحمت دیکھیے

’’ کیف زا ، فرحت فزا ہے کوچۂِ سرور کی دھوپ ‘‘

سارا عالَم اِک تجلّی سے ہو سرمہ مثلِ طور

کھول دی جائے ذرا سی گر رخِ انور کی دھوپ

تاکہ روز افزوں ترقّی پر رہے نور و جمال

چاند سورج تاپتے ہیں گنبدِ اخضر کی دھوپ

سوزِ عشقِ مہرِ طیبہ سے ہیں جو خالی ، وہ دل

کاش گرمادے مِرے اشعار کے دفتر کی دھوپ

رات میں کیا خوب منظر چاندنی کا ہے عیاں

زلف سے چِھن چِھن کے آتی ہے رخِ انور کی دھوپ

عاشقانِ گیسو و رخسار کو کیا کیا مِلا ؟

چشمِ تر باہر کی بارش ، سوزِ دل اندر کی دھوپ

اے معظم ! ان کے ذرّے کے گدا ہیں مہر و ماہ

صحنِ عالَم میں کھلی ہے ان کے بام و در کی دھوپ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]