دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو
ہم نے سمجھا نہیں دریا کی پریشانی کو
یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو
بے گھری کا مجھے احساس دلانے والے
تو نے برتا ہے مری بے سر و سامانی کو
شرمساری ہے کہ رکنے میں نہیں آتی ہے
خشک کب تک کوئی کرتا رہے پیشانی کو
آپ سے کس نے طلب کی ہے جنوں پر رائے
چھوڑئیے آپ مری چاک گریبانی کو
جیسے رنگوں کی بخیلی بھی ہنر ہو اظہرؔ
غور سے دیکھیے تصویر کی عریانی کو