دُھوپ میں تلاشِ سائباں

مجھے یقیں ہے
وہ سن رہے ہیں نگاہِ خاموش کی صدائیں
دُکھوں سے بوجھل مری نوائیں
وہ جانتے ہیں
ہزارہا درد و غم کی شمعیں
فسردہ سینوں میں جل رہی ہیں
یہ جسم و جاں جو شکست خوردہ ہیں سوچتے ہیں
غم و الم کی جو دھوپ پھیلی ہوئی ہے اس میں
کرم کے بادل سروں پہ اک سائباں بنانے
دیارِ رحمت سے کیوں نہیں اُٹھ سکے ابھی تک
مجھے یقیں ہے
اور اس یقیں پر حیاتِ امروز کا تسلسل
حیاتِ فردا کی خوش دلی کی طرف رواں ہے
یہ دورِ جبر و ستم بہت جلد دُور ہوگا
محبتوں کا ظہور ہوگا
کرم نبی کا ضرور ہوگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]