دیار ہجر میں شمعیں جلا رہا ہے وہی

مجھے وصال کا مژدہ سنا رہا ہے وہی

وہ بے نشاں ہے مگر پھر بھی اپنی قدرت کے

نشاں ہزارہا ہر سو دکھا رہا ہے وہی

اسی کی ذات مری دستگیر ہے ہمہ حال

ہر ابتلا میں مرا آسرا رہا ہے وہی

ہزار ماؤں کی ممتا سے بھی وہ بڑھ کر ہے

کہ دے کے تھپکیاں ہر شب سلا رہا ہے وہی

نوید وصل وہی دیتا ہے فراق کے بعد

بچھڑنے والوں کو پھر سے ملا رہا ہے وہی

سمایا ہے میری رگ رگ میں وہ لہو کی طرح

مری تمنا، مرا مدعا رہا ہے وہی

قریب تر ہے رگ جاں سے ذات پاک اس کی

حریم ذات سے مجھ کو بلا رہا ہے وہی

وہ اپنے ذکر سے مہکائے جان و دل میرے

مرا خرابہ گلستاں بنا رہا ہے وہی

پکارتا ہے مجھے دھیان کے دریچوں سے

مرے شعور کو نیر جگا رہا ہے وہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]