دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا

یہیں صراطِ خلد کا سراغ رکھ دیا گیا

لٹا رہا ہے مدحتِ امامِ انبیاء کی ضو

مرے قلم میں ضوفشاں چراغ رکھ دیا گیا

سمجھ لیا نہ جانے اس کو عکسِ عارضِ نبی

اسی لئے رخِ قمر میں داغ رکھ دیا گیا

شرابِ عشقِ مصطفیٰ کی بوند کا سوال تھا

نظر سے ہو گئی بہم، ایاغ رکھ دیا گیا

گمان کیا گیا جمالِ بے پناہ کی طرف

ختن کا مشک در دل و دماغ رکھ دیا گیا

بروزِ مرگ ہو گیا ہے اہتمام وصل کا

لحد میں طولِ ہجر سے فراغ رکھ دیا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]