دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

مطلعِ حرف سے تب مدحِ پیمبر ابھرے

اسمِ تاباں شہِ کونین کا جب بھی سوچا

بامِ افکار پہ کیا کیا مہ و اختر ابھرے

ان کی طاعت میں کوئی بردہ مٹادے خود کو

اس پہ بھی بھیک میں کچھ حسنِ پیمبر ابھرے

ان کے عشّاق کو کس طرح مٹائے دنیا

ان کی الفت میں جو ڈوبے ہیں وہ بڑھ کر ابھرے

مٹ گیا نام زمانے سے ترے اعدا کا

جو بھی عاشق ہیں وہ عزّت کے فلک پر ابھرے

تیری نسبت سے ہی صدیق و عمر چمکے ہیں

تیری نسبت سے ہی عثماں ہوئے، حیدر ابھرے

تیرے ہی نقشِ قدم سے ہوا یثرب طیبہ

میرے دل پر بھی شہا نقشِ منوّر ابھرے

منتظر جس کی تمنّا میں رہا ہوں نوری

کاش جاتے ہوئے آنکھوں میں وہ منظر ابھرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]