دیکھ یہ رونق ِدنیا جو خَلا جیسی ہے

اپنی تنہائی کم و بیش خُدا جیسی ہے

دو پللک بِیچ بدل جاتا ہے منظر کا فسُوں

تیری دنیا بھی مری خواب سَرا جیسی ہے

ہر کسی پر نہیں کُھلتا تیرے دیوانے کا شعر

اِس کی بندش بھی ترے بند ِقبا جیسی ہے

آئینہ خانہء حیرت میرا مسکن ہے سو تُو

اپنی صورت پہ مری شکل بَنا، جیسی ہے

زِندگی مُفت ملی ہے تو شکایت کیسی

جب تلک سانس چلے، کام چلا جیسی ہے

گھر تو پِھر گھر ہے غریب الوطنی میں ضیغم

پیڑ کی چھاؤں مجھے ماں کی دُعا جیسی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]