دے نہیں سکتا جنوں یوں تو کوئی تاویل تک
پر ترا ہی ذکر ہے عنوان سے تفصیل تک
گر چکا منظر پہ پردہ ، گل ہوئی ہے روشنی
کھیل آخر کار پہنچا ، پایہِ تکمیل تک
تم ہوئے عریاں تو جیسے جم گئی شمعوں کی لو
دم بخود جیسے کھڑی تھی دودھیا قندیل تک
ہاتھ چاہے شل ہوئے جاتے ہیں لیکن آندھیاں
کر نہ پائیں بادباں کا زاویہ تبدیل تک
جا ، کہ تیری منتظر ہیں ارتقاء کی منزلیں
تھا مرا کردار قصے میں تری تشکیل تک