ذرا جو ہوتی کہیں خواہشِ نمو مجھ میں

تو سبزہ پھوٹنے لگنا تھا چار سو مجھ میں

میں جس کو ذات سے باہر تلاش کرتا ہوں

بھٹکتی پھر رہی ہے اب بھی کوبکو مجھ میں

میں جب بھی درد کی شدت سے ٹوٹ جاتا ہوں

تمھاری شکل ابھرتی ہے ہوبہو مجھ میں

ترے شکستہ ارادوں کو میں سنبھالوں گا

معاملہ کوئی ایسا اٹھا لے تو مجھ میں

میں پانیوں میں کہیں لاش بن کے بہتا ہوں

اور ایک خاک کا ریلہ ہے جوبجو مجھ میں

چھڑے گی جنگ تو ماروں گا سب سے پہلے اُسے

چھپا ہے آخری جو ایک صلح جو مجھ میں

رگوں سے خاک بہانی پڑے گی اب شاید

کہ ایک قطرہ بھی باقی نہیں لہو مجھ میں

ہزار فتنے اٹھانے لگے ہیں سر قیصر

نماز پڑھنے لگا کوئی بے وضو مجھ میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]