ذکرِ حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے

ذکرِ حبیب ہوتا ہے لیکن نصیب سے

ہم خوش نصیب ہیں کہ غلاموں میں ہے شمار

تسکینِ قلب ہوتی ہے ذکر حبیب سے

عشقِ بلالؓ کی نہیں ملتی کوئی مثال

دار و رسن کا خوف نہ گزرا قریب سے

دل میں تڑپ ہے چوم لوں جالی کو ایک بار

تکنا نصیب جب سے ہوا ہے قریب سے

راہِ خدا میں جان لڑا کر ہیں جاوداں

اصحابؓ عشق کرتے تھے یوں ہی حبیب سے

اپنے نصیب کی بھی نہیں ہے کوئی مثال

رشتہ ہمارا جوڑا ہے رب نے حبیب سے

کتنا دھنی ہے تو بھی مقدر کا وارثیؔ

تو نعت بھی سناتا ہے اذن حبیب سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]