راستہ خواب کا جب نیند کو پتھریلا پڑے

زہر آنکھوں میں سیہ رات کا زہریلا پڑے

تو سمجھ جانا بچھڑنے کا سمے آ پہنچا

ہاتھ جب تیری کلائی پہ مرا ڈھیلا پڑے

حسن ِ سادہ مری خواہش ہے سنورتے ہوئے بھی

آئنہ ٹوٹے ترا عکس نہ چمکیلا پڑے

کچھ نہیں پھول تو دوچار نکل آئیں گے

خشک مٹی پہ اگر پیر ترا گیلا پڑے

عشق آسان سفر ہے تو سفر کیا کرنا

دشت آئے مرے رستے میں کوئی ٹیلہ پڑے

تم اسے دھوپ سی پوشاک کا تحٖفہ دو گے ؟

جو بدن چھاؤں پہنتے ہوئے بھی پیلا پڑے

ضبط کو توڑیے سر پھوڑیے ،، حیدر صاحب

موسم ہجر میں بھی خوں نہ اگر نیلا پڑے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]