رنج و آلام دور رہتے ہیں

مجھ پہ طاری سرور رہتے ہیں

ہے یقیں دل حرا ہے یا طیبہ

جب سے دل میں حضور رہتے ہیں

اُن کی چشمِ کرم کا صدقہ ہے

علم ہے ، باشعور رہتے ہیں

جب سے ہونٹوں پہ اُن کا نام آیا

غم نہیں ہیں ، سرور رہتے ہیں

جو دوانے ہیں شاہِ بطحا کے

راحتوں میں ضرور رہتے ہیں

وہ رضاؔ خوار ہو گئے سارے

جو بھی آقا سے دور رہتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]