رواں ہے طبعِ سخن میں جو رنگ و بُوئے ما

بہ مدحِ صاحبِ قرآں ہے چارہ جُوئے ما

کبھی سفر ، کبھی گردِ سفر ، کبھی منزل

مدینے والے ! یہی کچھ ہے آرزوئے ما

قبول ، تختِ شہی ہے نہ قصرِ دارائی

نیازِ گوشۂ مدحت ہے آپ کی مدحت

شرَف نوازِ تمنا ہے آپ کی مدحت

کریم ! آپ کی نسبت ہے آبروئے ما

محیطِ دیدہ و دل ہے اُسی کے جذب کی رَو

وہ ایک اسم ہے ، واللہ ، چار سُوئے ما

ہیں نور بارِ تخیل اُسی کے نقش و نگار

جو ایک شہرِ تصور ہے روبروئے ما

سپردِ شوقِ نویدِ سفر رہے ، ورنہ

عبث ہے اس کے سوا خواہشِ نموئے ما

وہ جس کے دَم سے بہارِ حیات ہے مقصودؔ

وہ بادِ خیر چلی آئے اب تو سُوئے ما

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]