روشن ہُوا ہے دہر میں ایسا دیا حسین

جس کو بجھا سکی نہ مخالف ہوا حسین

خوشبو سے جس کی آج معطر گلی گلی

بستانِ مصطفٰے کا گلِ خوشنما حسین

نام و نشاں یزید کا دنیا سے مٹ گیا

اسمِ گرامی آپ کا زندہ رہا حسین

بہتا فرات آن کے قدموں میں آپ کے

ہاتھوں کو ایک بار جو دیتے اٹھا حسین

قرآن پڑھا جاتا رہا سو بسو مگر

نوکِ سناں کے اوج پہ تو نے پڑھا حسین

باطل کو اپنے نام سے جوڑا یزید نے

حق تو ہمیشہ تیری طرف ہی رہا حسین

سجدہ جلیل قابلِ تحسین وہ ہی ہے

کرب و بلا کی ریت پہ جو کر گیا حسین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]