زندگی اپنی اسی طور سنواری جائے
دل میں تصویر مدینے کی اتاری جائے
کہکشاں راہ میں یوں بچھتی چلی جاتی ہے
جانب عرش شہ دیں کی سواری جائے
اس قدر بھرتے ہیں دامن کہ اٹھائے نہ بنے
ان کے کوچے میں اگر کوئی بھکاری جائے
حسن ایسا ترے رب نے تجھے بخشا آقا
چاند سو بار ترے چہرے پہ واری جائے
جس طرف ان کے غلاموں کے قدم اٹھ جائیں
اس طرف قافلۂ رحمت باری جائے
دل میں بغض شہ کونین جو رکھ کر کی ہے
وہ عبادت ترے منھ پر ہی نہ ماری جائے
جب بڑھے گنبد خضریٰ کی طرف میرے قدم
دل مرا کرتا ہوا گریہ و زاری جائے
جس کے صدقے میں پلا کرتی ہے مخلوق تمام
اسی چوکھٹ پہ چلو جھولی پساری جائے
عشق آقا کے ہیں ہر شاخ پہ غنچے روشن
میرے گلزار سے کیوں باد بہاری جائے
جی نہ پاؤں گا اگر ہجر کی نوبت آئی
چھوڑ کر مجھ کو نہ اب نعت نگاری جائے
نور وہ بارگہ سرور کونین ہے بس
بات خالی نہ جہاں کوئی ہماری جائے