زیادہ کٹھن ہے ترک ِ نظارہ کے کرب سے

زیادہ کٹھن ہے ترکِ نظارہ کے کرب سے

اُس محوِ دید کو پسِ منظر سے دیکھنا

فی الحال میں زمین کو اُوپر سے دیکھ لوں

پھر تو ہے تا ابد اسے اندر سے دیکھنا

میں بھی افق پہ دید جماؤں گا دن ڈھلے

تم بھی زمیں کی سمت ، سمندر سے دیکھنا

وہ بے دِلی ہے آج ، کہ اپنی ہی دھڑکنیں

دِل چاہتا ہے دیدہِ خنجر سے دیکھنا

سنسان راستوں پہ دھرے انتظار کو

بالیں سے ، روزنوں سے ، کبھی در سے دیکھنا

آخر کو آ گیا ہے ، نکلنا وجود سے

یعنی کہ اپنے آپ کو باہر سے دیکھنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]