سارے عالم میں انوار کی روشنی

چار سُو ان کے افکار کی روشنی

تیرگی میرے من میں ہو کیسے بھلا

میرے اندر ہے سرکار کی روشنی

پھر زمانے میں جھکتے نہیں ان کے سر

جن کے ہاتھوں میں تلوار کی روشنی

ان کے گھر میں رہے گا اندھیرا سدا

جن کو مطلوب اغیار کی روشنی

فصل بوتے ہیں جو حُسنِ اعمال کی

ان کو ملتی ہے اثمار کی روشنی

قافلے وہ ہی منزل تلک جا سکے

جن کو حاصل تھی سالار کی روشنی

جس نے ارض و سما کو منّور کیا

منبعِ نُور تھی غار کی روشنی

ٹھیرے ان کے صحابہ نجومِ فلک

مثلِ سورج ہے سردار کی روشنی

وہ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا کہیں

ان کے صدقے ہے سنسار کی روشنی

جب سے چوما ہے عُشّاق نے دار کو

بس امر ہوگئی دار کی روشنی

ہیں جلیل اس جہاں میں وہی سرخرو

جن کے دامن میں کردار کی روشنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]