سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر

گھر سے نکلے تو چمن زار نہیں آیا پھر

پھر مجھے خاکِ جنوں لے کے پھری دشت بہ دشت

وہ ترا شہرِ خوش آثار نہیں آیا پھر

تم نے تو دام لگا کر یونہی بس چھوڑ دیا

میرے خوابوں کا خریدار نہیں آیا پھر

بجھ گئی جلتی ہوئی دھوپ تو ہمسایوں کے بیچ

قضیۂ سایۂ دیوار نہیں آیا پھر

جانے اب شہر کا کیا رنگ ہے، کیا عالم ہے؟

آج دروازے پر اخبار نہیں آیا پھر

سلسلہ اُن سے تکلم کا جو ٹوٹا تو ظہیرؔ

بزم میں تشنۂ اظہار نہیں آیا پھر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]